Waseem khan

Add To collaction

01-May-2022 لیکھنی کی کہانی ۔ آں چست از روز میری قسط 14

آں چست
از روز میری 
قسط نمبر14

"حرا چیک اپ ہو گیا؟"۔    تعویذ کو کوٹ کی جیب میں رکھتے شہریار ہوسپٹل داخل ہوا جب حرا کو کیبن کے باہر کھڑا دیکھ شہریار نے اس سے پوچھا۔
"ہاں جی ہو گیا اور آپکے لیئے ایک گڈ نیوز بھی ہے"۔   حرا نے دلچسپی سے کہا۔
"گڈ نیوز؟؟کیسی گڈ نیوز؟"۔    شہریار متحیر ہوا۔
"یہ بھی اب بتانا پڑے گا آپ کو' آپ خود ہی سمجھ جائیں"۔    حرا نے خفگی سے کہا پھر شرماتے ہوئے سر جھکا لیا۔
"کیا واقعی حرا؟"۔     شہریار کو جیسے تصدیق کرنی تھی۔
"جی"۔    بولتے ہی حرا نے ہاتھ میں پکڑی فائل شہریار کی جانب بڑھائی جسے شہریار نے چشم گزار کیا۔
"تھینک یو سو مچ حرا' چلو جلدی چلو ہمیں گھر چل کر یہ خوشخبری سب کو سنانی ہے اور راستے سے مٹھائی بھی تو لینی ہے"۔     شہریار نے پرتپاک انداز میں کہا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
 "ماما' پاپا' نانو آپ کیلیئے ایک خوشخبری ہے"۔    شہریار ہاتھ میں مٹھائی کا ڈبہ پکڑے' حرا کے ہم قدم حویلی کی انٹرنس پار کرتے ہال میں پہنچا جہاں سمعان صاحب، راضیہ بیگم اور نگینہ بیگم بیٹھے چائے پی رہے تھے ساتھ ہی گپ شپ بھی کر رہے تھے۔
"کیسی خوشخبری بیٹا؟"۔    ہاتھ میں پکڑی پیالی ٹیبل پہ رکھتے راضیہ بیگم نے پوچھا۔
"ماما ایم گوئنگ ٹو بی ڈیڈ' یہ لیں مٹھائی کھائیں"۔    شہریار نے پرمسرت انداز میں بولتے ہی ڈبہ ٹیبل پہ رکھا۔
"سچ بیٹا"۔    راضیہ بیگم صوفے سے اٹھتے حرا کی طرف آئیں جس پہ حرا نے "ہاں" میں سر ہلا دیا۔
"خوش رہو بیٹا"۔    حرا کی پیشانی پہ بوسہ دیتے راضیہ بیگم نے کہا۔
"مبارک ہو شہریار"۔    سمعان صاحب نے صوفے سے اٹھتے شہریار کو گلے لگایا۔
"خیر مبارک پاپا"۔
"خیر ہو بڑا پیار آ رہا ہے بھابی پہ' کیا چکر ہے؟"۔    احد جو سیڑھیاں اترتے ہال میں پہنچا تھا راضیہ بیگم کو حرا پہ پیار لٹاتا دیکھ ' نے شرارت سے کہا۔
"میں حرا پہ اتنا پیار کیوں نچھاور کر رہی ہوں اگر تمھیں پتہ چلے نا تو تمھیں بھی خوشی ہوگی"۔   راضیہ بیگم نے احد کی جانب چہرہ کرتے جواب دیا۔
"کیوں ایسی کونسی بات ہے؟"۔    احد نے دل آویزی سے کہا۔
"ایک منٹ میں بتاتا ہوں"۔   شہریار نے بولتے ہی ٹیبل پہ رکھے مٹھائی کے ڈبے سے گلاب جامن اٹھایا پھر احد کی طرف بڑھا۔   "تم چاچو بننے والے ہو"۔    شہریار نے گلاب جامن دھونس سے احد کے منہ میں ڈالا جس سے اسکا منہ بھر گیا تھا۔
"کیا واقعی بھائی؟"۔    مٹھائی سے منہ پر ہونے کے سبب احد کے منہ سے الفاظ کی ادائیگی مشکل ہو گئی تھی۔
"بالکل"۔    شہریار نے خوش کن انداز میں کہا۔
"میں ابھی مشو کو بتا کر آیا"۔    احد جوش میں سیڑھیوں کی طرف دوڑا۔
"دھیان سے بیٹا ورنہ پھر چوٹ لگے گی"۔    راضیہ بیگم نے آواز لگائی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"خیریت تو ہے بڑی بتیسیاں نکل رہی ہیں' کیا ماجرا ہے؟؟"۔      مشائم ہنستے ہوئے اپنے روم سے نکل رہی تھی جب مخالف سمت سے زہرہ اس سے ٹکڑائی۔
"جی جی آپی سب خیریت ہے"۔    مشائم بظاہر رک گئی تھی لیکن اسکے قدم جیسے ہواوں میں تھے۔
"اتنی خوشی کس بات کی ہے مجھے بھی تو بتاو"۔    زہرہ نے سینے پہ ہاتھ باندھے۔
"آپی وہ احد کی کال آئی تھی وہ کہہ رہا تھا کہ۔۔"۔   
"کہ سمعان انکل اور راضیہ آنٹی تمھاری شادی کی تاریخ طے کرنے آ رہے ہیں؟"۔    زہرہ نے اسکی بات کاٹی۔
"نہیں آپی یہ بات نہیں ہے"۔    مشائم نے نفی کی۔
"تو پھر کونسی بات ہے مشی؟؟"۔    
"آپی وہ احد چاچو بننے والا ہے"۔    مشائم شرما دی۔
جبکہ زہرہ کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
 "اگر احد چاچو بن رہا ہے تو تم کیوں اتنا خوش ہو اور شرما بھی رہی ہو؟"۔    زہرہ نے حیرت سے پوچھا۔
"آپی اگر احد چاچو بننے والا ہے میں بھی تو چاچی بننے والی ہوں"۔    مشائم نے مسکرا کر کہا۔
"آہاں چاچی بننے والی ہوں' ابھی کونسا تمھاری شادی ہوئی ہے؟ اویں ہی چاچی بن گئی ہو"۔    زہرہ نے خفگی سے کہا۔
"ہاں تو' ہو تو جانی ہے نا آخر منگیتر ہے احد میرا"۔    مشائم نے چڑ کر کہا۔  "آپ سے تو ویسے ہی میری خوشی ہضم نہیں ہوتی۔۔۔  رہنے دیں۔۔۔  میں ماما کو بتا کر آتی ہوں"۔   بولتے ہی مشائم قدم اٹھانے لگی تھی۔
"مس ڈرامہ تمھارے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی انہیں کال آچکی ہے"۔   زہرہ نے پلٹ کر آواز لگائی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"پاپا"۔    سمعان صاحب کے روم کی دہلیز پہ کھڑے ہوتے احد نے دروازہ ناک کیا۔
"احد بیٹا وہاں کیوں کھڑے ہو اندر آو"۔   سمعان صاحب جو بیڈ کے بائیں ہاتھ پہ رکھے صوفے پہ براجمان ایک فائل کے صفحات ٹٹول رہے تھے' نے چہرہ اٹھایا۔
"پاپا آپ کوئی کام کر رہے ہیں؟؟"۔     سمعان صاحب کے قریب آتے احد نے احتیاط پوچھ لیا۔
"نہیں بیٹا کوئی خاص کام نہیں ہے' بیٹھو"۔    سمعان صاحب نے فائل سامنے ٹیبل پہ رکھی۔
"پاپا مجھے آپ سے بات کرنی ہے"۔    احد سمعان صاحب کے بائیں ہاتھ پہ رکھے کشادہ صوفے پہ بیٹھ گیا تھا۔
"کہو احد کیا بات ہے؟"۔    سمعان صاحب نے کہا۔
راضیہ بیگم بھی اس دم روم میں داخل ہوئیں۔
"پاپا وہ آپ عامر انکل اور عمارہ آنٹی سے بات کر کے میرے اور مشائم کی شادی کی تاریخ رکھ دیں' میں یہ چاہتا ہوں"۔   احد نے جھجک کر کہا۔
"بیٹا اس میں ہچکچانے والی کونسی بات ہے؟ تم فکر مت کرو ہم کل ہی جائیں گے تمھاری اور مشائم کی شادی کی تاریخ طے کرنے کیلیئے"۔   سمعان صاحب ہنس دیئے۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"تو بس پھر بھابی یہ طے ہوا کہ اس ہفتے احد اور مشائم کا نکاح ہوگا اور بیس دن بعد شادی"۔    
سمعان صاحب، راضیہ بیگم، عامر صاحب، نگینہ بیگم اور عمارہ بیگم ڈرائنگ روم میں بیٹھے گفتگو میں منہمک تھے جب سمعان صاحب نے حتمی فیصلہ سنایا۔
"بھئی سمعان مشائم تو ہے ہی تم لوگوں کی امانت ہم بھی اسی کے منتظر تھے کہ کب تم لوگ آ کے اپنی امانت لیتے ہو۔ میری خواہش ہے کہ بس آخری سانس سے پہلے زہرہ کی طرح مشائم کو بھی اپنے گھر کا ہوتا دیکھ لوں"۔   عامر صاحب جو سمعان صاحب کے دائیں ہاتھ پہ رکھے کشادہ صوفے پہ عمارہ بیگم کے برابر تھوڑا فاصلے پہ بیٹھے تھے' نے سمعان صاحب کو مخاطب کیا۔
"سمجھو تمھاری یہ ٹینشن ختم ہو گئی"۔    سمعان صاحب نے کہا۔
زہرہ بھی چائے کے ہمراہ کھانے کی اشیاء لے آئی تھی۔
"ہاں یہ تو ہے اب میں سرخرو ہو گیا سمجھو"۔    عامر صاحب نے قہقہ لگایا۔  "زہرہ سمعان اور بھابی کا منہ میٹھا کرواو'مٹھائی لے کر آو"۔    عامر صاحب نے ٹرالی میں مٹھائی کی عدم موجودگی میں زہرہ کو مخاطب کیا۔
"پاپا مٹھائی کیوں؟؟نہیں میرا مطلب ہے کہ کوئی خاص وجہ ہے؟؟"۔    زہرہ نے حیرت سے پوچھا۔
"بیٹا بات ہی خوشی کی ہے"۔    عمارہ بیگم نے شادمانی سے کہا۔
"کیا بات ہے ماما مجھے بھی تو بتائیں"۔    اشیاء وسط میں رکھے ٹیبل پہ رکھتے زہرہ نے تجسس سے پوچھا۔
"بیٹا اس ہفتے احد اور مشائم کا نکاح ہے اور بیس دن بعد شادی"۔     راضیہ بیگم نے جواب دیا۔
"سچی"۔    زہرہ کے چہرے پہ مسکراہٹ تیرنے لگی۔
"باتیں ہی کرتی رہوگی یا منہ بھی میٹھا کرواو گی؟"۔    عمارہ بیگم نے کہا۔
"جی ماما ابھی آئی مٹھائی لے کے ساتھ ہی مشائم کے سر پہ بم پھوڑ کے"۔    زہرہ عجلت میں ڈرائنگ روم سے نکل گئی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"مشی ۔۔۔ مشی کہاں ہو؟؟"۔     زہرہ مشائم کے روم میں داخل ہوئی مگر مشائم کو غیر حاضر پایا جس پہ وہ اسکا نام پکارنے لگی۔
"کیا ہو گیا ہے آپی؟"۔    مشائم جو واش روم سے اس دم نکلی تھی' خفگی میں کہنے لگی۔
"گیس وٹ؟"۔    مشائم کا ہاتھ تھامے زہرہ ہلکا سا گولائی میں جھومنے لگی تھی۔
"کیا؟؟"۔      زہرہ کے کھلیں بانچھیں دیکھ مشائم کی دلچسپی بڑھی۔
"اس ہفتے تمھارا اور احد کا نکاح ہے اور ٹھیک بیس دن بعد شادی"۔     زہرہ نے جوش زنی سے کہا۔
"نا کریں آپی۔۔۔ کیا واقعی؟؟ آپ سچ کہہ رہی ہیں؟؟"۔    یکلخت جھومتے جھومتے اسکے قدم تھمے۔
"ہاں مشی سمعان انکل، راضیہ آنٹی اور نگینہ نانو آئے ہیں تمھاری شادی کی ڈیٹ فکس کرنے کیلیئے"۔    زہرہ نے وضاحت دی۔
مشائم کا چہرہ کھل سا گیا۔۔۔۔ احد کا خیال آتے ہی مشائم کے رخسار لال لالی سے ڈھانپ گئے تھے۔
"چلو اچھا ہے اس گھر میں تم بھی کچھ ہی دن کی مہمان ہو اب کم از کم یہ تو نہیں ہوگا کہ میں یہاں آوں اور میرا سکون تمھاری وجہ سے برباد ہو"۔    زہرہ شریر ہوئی لیکن آج پہلی بار زہرہ کی بات کا مشائم نے برا نہیں منایا تھا۔
"بھئی احد تو میرے لیئے لکی ثابت ہوا ہے"۔    زہرہ اتراتے ہوئے بیڈ پہ بیٹھ گئی تھی۔
"مطلب؟؟"۔    
"مطلب یہ کہ اسکی ہونے والی بیوی نے میرے ساتھ بحث جو نہیں کی"۔    زہرہ نے شوخ مزاج سے کام لیا۔
"ہوں لیں خوش ۔۔۔ خوش ہونا بنتا بھی ہے"۔    مشائم نے قہقہ لگایا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
مشائم بیڈ پہ آ کے بیٹھی ہی تھی کہ اسکا فون چنگارا۔۔ سائیڈ ٹیبل سے فون اٹھا کو سکرین پہ نگاہ ڈالی جہاں احد کا نمبر منور تھا۔
ہونٹوں پہ مسکراہٹ نے گھیرا تنگ کیا۔
"آپکا ملایا ہوا نمبر اس وقت مائیوں بیٹھا ہے برائے مہربانی بیس دن بعد رابطہ کریں' شکریہ"۔    کال ریسیو کرتے ہی مشائم نے شرارت سے کہا پھر احد کی بےتابی' بے قراری' خوشی اور چاہت کو الفاظ میں سننے اور دیوانگی کی لذت کو محسوس کرنے کی غرض سے خاموش ہو گئی۔
"معذرت میم'خدا حافظ"۔    مشائم کی حرکت سے باخبر احد نے ہنسی دباتے فورا سے کہا۔
"ارے ارے یہ کیا بات ہوئی میں کب سے تمھارا ویٹ کر رہی ہوں کہ کب تم مجھے کال کرو گے اور مجھ سے باتیں کرو گے' مجھ سے پوچھو گے کہ میں کیسا فیل کر رہی ہوں' میں تم سے پوچھوں گی مگر تم"۔   مشائم تلملا اٹھی تھی۔
"آہاں لیکن ابھی تو مجھے اگاہ کیا جا رہا تھا کہ میرا مطلوبہ نمبر اب مائیوں بیٹھ چکا ہے اور اسلامی رو سے تو مائیوں کی دلہن تو ڈسٹرب نہیں کیا جاتا"۔    احد نے آزمودہ کاری سے کہا۔
"میں مذاق کر رہی تھی احد"۔    مشائم نے افسردگی سے کہا۔
"میں کونسا سیریس تھا اگر تم سچ میں بھی مائیوں بیٹھ جاو نا تب بھی تم سے بات کرنا اور ملاقات کرنا نہیں چھوڑوں گا بھلے سے سانس لینا چھوڑ دوں"۔    احد نے دوٹوک کہا۔
"احد ایسی باتیں نہیں کیا کرو ' ساتھ جینا ہے ہمیں اور تم مرنے والی باتیں کرنے لگ جاتے ہو"۔    مشائم نے ناراضگی سے کہا۔
"اوکے بابا سوری۔۔ اچھا بتاو کیسا لگا سرپرائز؟؟"۔    احد نے دل آویزی سے پوچھا۔
"بہت اچھا۔۔۔ بہت خوش ہوں میں' میں تمھیں بتا نہیں سکتی احد کہ میں کیسا فیل کر رہی ہوں۔۔۔ بہت کچھ بولنا چاہتی ہوں مگر الفاظ جیسے مل ہی نہیں رہے۔۔۔ میری اب اس بچے کی مانند حالت ہے جسے بولنا نا آتا ہو اور کھلونا پا کر اپنی خوشی کا اظہار جھوم کر، ہنس کر، ادھر ادھر گھوم کر کرتا ہے"۔    مشائم کی خوشی اسکی باتوں سے بخوبی عیاں تھی جو احد محسوس کرتے مطمئن اور پرسکون تھا۔
"مجھے آج معلوم ہوا ہے کہ محبت میں ناکامی ملے تو لوگ موت کو گلے کیوں لگاتے ہیں ۔۔۔ جتنی خوشی انسان کو محبت پانے پہ ہوتی ہے اتنا ہی دکھ اور صدمہ محبت کو کھو دینے کا بھی ہوتا ہے ۔۔۔ اور ایسے حالات میں موت کے سوا دوسرا راستہ نہیں نظر آتا"۔    
"اچھا بس' مجھے منع کر رہی تھی اور خود شروع ہو گئی"۔      احد نے فی الفور کہا۔
"سوری"۔    مشائم ہنس دی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

   0
0 Comments